ایران میں مہسا امینی خاتون کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد پھوٹ پڑنے والا احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ انٹرنیٹ سروسز بھی تقریباً معطل کر دی گئی ہیں اور ملک میں موجود دو مغربی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز انسٹاگرام اور واٹس ایپ تک رسائی متاثرہوئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی نے ایرانی اعلٰی عہدیدار کا بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر ایسے اقدامات کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
رابطوں کے ذرائع کے فقدان کے باعث لوگوں کے لیے احتجاج کو منظم کرنا اور حکومت کی جانب سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے حوالے سے معلومات کی فراہمی مشکل ہو جائے گی۔
درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اور پھر دوران حراست ہی 22 سالہ خاتون کی ہلاکت کے بعد ایران میں شدید احتجاج ہو رہا ہے، جس میں کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جبکہ جھڑپوں کے دوران آٹھ افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں، جن میں چار کو فورسز نے نشانہ بنایا جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں۔
دوسری جانب ایرانی حکام نے کا کہنا ہے کہ صرف تین ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اس کا الزام نامعلوم مسلح گروپ پر لگایا ہے۔
ایران میں موجود ایک عینی شاہد نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ بدھ کی شام سے ان کو موبائل فون پر انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
انٹرنیٹ کمپنی کے ڈائریکٹر ڈاؤگ میدوری کا کہا ہے کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں انٹرینٹ سروس اور موبائل ڈیٹا کو بلاک کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ موجودہ حالات کی مناسبت سے حکومتی اقدام دکھائی دیتا ہے، میں تصدیق کرتا ہوں کہ تمام موبائل فونز پر انٹرنیٹ تک رسائی بند کر دی گئی ہے۔‘
انٹرنیٹ سروسز پر نظر رکھنے والی لندن کی کمپنی نیٹ بلاکس کی جانب سے پہلے انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے نیٹ ورک متاثر ہونے کی اطلاع دی تھی۔
اسی طرح فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا جو کہ دونوں پلیٹ فارمز کی ملکیت رکھتی ہے، کا کہنا ہے کہ اس کے علم میں ایران میں صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی روک دی گئی ہے۔
’ہمیں امید ہے کہ صارفین کے آن لائن آنے کے حق کو جلد ہی بحال کر دیا جائے گا۔‘
بدھ کو صبح کے وقت ایران کے وزیر برائے ٹیلی کمیونی کیشن اسرا زیریپور نے سرکاری میڈیا کے ذریعے بتایا تھا کہ ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر کچھ پابندیوں کا نفاذ کیا جا سکتا ہے، تاہم انہوں نے ان کی نوعیت کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔
ایران میں پہلے سے فیس بک، ٹیلی فرام، ٹوئٹر اور یوٹیوب بند ہیں حالانکہ اعلٰی ایرانی حکام ان پلیٹ فارمز پر ’پبلک اکاؤنٹس‘ رکھتے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں ایرانی شہری بھی وی پی این اور دوسری پراکسیز کے ذریعے ان کا استعال کرتے ہیں۔
اسی طرح بہت سی سرکاری ویب سائٹس جن میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنی، صدر اور مرکزی بینک کی ویب سائٹس بھی شامل ہیں، کو فوری طور پر بند کردیا گیا ہے کیونکہ ہیکرز کی جانب سے ریاستی اداروں پر سائبر حملے کا دعوٰی کیا گیا تھا۔