کیرل ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ پرسنل لا کے تحت مسلمانوں کی شادی کو پاکسو ایکٹ کے دائرے سے باہر نہیں کیا گیا ہے۔ جسٹس بیچو کورین تھامس نے کہا کہ اگر شادی میں ایک فریق نابالغ ہے، تو شادی کی درستگی سے قطع نظر پاکسو ایکٹ کے تحت جرم لاگو ہوں گے۔
جسٹس بیچو کورین تھامس کی یک رکنی بنچ نے آگے کہا کہ پاکسو ایکٹ خاص طور سے جنسی معاملوں سے بچوں کی حفاظت کے لیے بنایاگیا ایک اسپیشل قانون ہے۔ آگے کہا کہ ایک بچے کے خلاف ہر طرح کی جنسی ہراسانی کو جرم مانا جاتا ہے۔ شادی کو اس سے باہر نہیں رکھا گیا ہے۔
بچوں کی شادی سماج کے لیے عذاب
عدالت نے یہ فیصلہ نابالغ لڑکی کے اغوا اور جنسی زیادتی کے ملزم 31 سالہ مسلم شخص کی ضمانت درخواست مسترد کرتے ہوئے دیا۔ اس نے منطق دی تھی کہ اس نے مارچ 2021 میں لڑکی پر لاگو پرسنل لا کے تحت جائز طور سے شادی کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ بچوں کی شادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی مانا گیا ہے۔ بچوں کی شادی ، بچے کی پوری صلاحیت کے فروغ سے سمجھوتہ کرتی ہے۔ یہ سماج کے لیے عذاب ہے۔
بچے کے ساتھ جنسی تعلقات بھلے ہی وہ شادی ہی کیوں نہ ہو وہ جرم ہے
پاکسو ایکٹ کے تحت شادی کی آڑ میں بچے کے ساتھ جسمانی تعلقات پر پابندی ہے۔ پرسنل لاء اور روایتی قانون دونوں قوانین ہیں۔ پاکسو ایکٹ کے نفاذ کے بعد، کسی کی آڑ میں یا شادی کے بعد بھی کسی بچے کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا جرم ہے اور ہمارا مقصد اس قانون کے ذریعے کمزور، بھولے بھالے اور معصوم بچے کو تحفظ فراہم کرنا ہے