karbala

عزاداری اور ہماری ذمہ داری

بلاگ و مضمون
حیدر آغا
تحریر: مولانا سید نثار حسین (حیدر آغا)

حوزہ نیوز ایجنسی| قال إمامنا الرضا عليه السلام: كان أبي إذا جاء شهر المحرم لا يُرى ضاحكاً، وكانت الكآبة تغلب عليه حتى تمضي منه عشرة أيام، فإذا كان يوم العاشر، كان ذلك اليوم يوم مصيبته وحزنه وبكائه ويقول: هو اليوم الذي قُتل فيه الحسين عليه السلام

امام رضاؑ فرماتے ہیں کہ جب بھی محرم کا مہینہ داخل ہوتا تھا تو کوئی بھی میرے بابا کو ہنستا ہوا نہیں پاتا تھا اور غم و اندوہ میرے بابا پر غالب آجاتا تھا یہاں تک کہ محرم کے دس دن گرز جاتے تھے پس جب عاشور کا دن آتا تھا تو یہ دن میرے بابا کے لئے مصیبت ، حزن و بکاء کا دن ہوتا تھا اور وہ کہتے تھے ( ہائے ) اس دن حسینؑ قتل کردئے گئے ۔

دین اسلام میں تمام عبادات کے ساتھ ساتھ کچھ آداب بھی ذکر ہوئے ہیں جو ان اعمال و عبادات کی فضیلت اور ثواب میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں اسی طرح ابی عبد اللہ الحسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب پر گریہ و زاری کرنا اور ان کی یاد مناتے ہوئے ان کی عزاداری اور ماتم کرنا بھی ایک اہم ترین عبادت ہے جسکے بھی کچھ خاص ایسے آداب ہیں جن کی رعایت کرنے سےاس عبادت کی فضیلت اور اجر و ثواب میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں اور واقعا ایک حقیقی عزادار حسینؑ کی ذمہ داری بھی یہی ہونی چاہئے کہ وہ اس عزاداری کو تمام تر آداب اور احترام کا خیال رکھتے ہوئے بی بی دوعالمؐ کی خدمت میں پرسہ دیں اس لئے کہ محرم آہ و بکاء اور آل محمد (ص) کے مصائب کا مہینہ ہے ، محرم کا مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ہمارے وقت کے امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اپنے جد مظلومؑ کو یاد کرتے ہوئے خون کے آنسو روتے ہیں۔

( لأَبكينَّ عليك بدل الدموعِ دماً) اور یہ مہینہ محمد و آل محمد (ع) اور ان کے چاہنے والوں کے لئے عظیم مصیبت کا مہینہ ہے لہٰذا ایک عزادار واقعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس عظیم عبادت اور عزاداری کو چند اعمال میں منحصر نہ کرتے ہوئےجتنا ہوسکے مولاؑ کے اس عظیم قربانی کے مقصد اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے رفتار، گفتار اور کردار اور ماتم کے ذریعے سے دنیا والوں کو مقصد حسینؑ سے آگاہ کرے ، اس لئے کہ محرم وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں سے ہر انسان اپنی معرفت و بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ حاصل کرکے جاتا ہے اور ایک عزادار کی بھی یہی نیت ہونی چاہئے کہ ہم اس فرش عزا سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر اٹھے ۔

جب یہ مہینہ اس قدر با عظمت اور غم و اندوہ کا مہینہ ہے تو ایک عزادار اور ماتم دار کے لئے ضروری ہے کہ اس میں اپنے کانوں ، آنکھوں ، ہاتھوں ، زبان اور بدن کے دیگر اعضاء کو گناہوں سے بچائے رکھے تاکہ ہمارا گریہ ، ماتم ، مجالس اور دیگر ہر وہ عمل جو ہم ایک عزادار ہونے کے اعتبار سے انجام دیتے ہیں وہ بارگاہ مولاؑ میں قبول ہو ۔ لہذا چند آداب کہ جن کا خیال رکھنا ایک ماتمی اور عزادار کے لئے بہت ضروری ہیں ہم یہاں ذکر کرتے ہیں ۔

۱۔ ہر وقت ہمیں زبان کو لہویات ، خرافات اور فضول باتوں سے محفوظ رکھنا چاہئے تاکہ اس ماہ میں جو کچھ بھی پرسہ ہم ‘مجلس، مرثیہ ، سلام اور نوحہ اور ماتم کی صورت میں پیش کریں گے وہ پاک زبان پر جاری ہو۔

۲۔ کربلا والوں کی مصیبت کو سن کر ہم جو آنسووں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ضروری ہے کہ یہ آنسو دل کی آنکھوں سے نکلے اور آنسو نہ نکلنے کی صورت میں رونے جیسی صورت بنائے ۔

۳۔ اسی طرح ہر وہ عزادار جو مختلف انداز میں امام حسینؑ کی بارگاہ میں نوکری کرتے ہیں اسے خلوص نیت کے ساتھ اور خوشنودی خدا و رسولؐ اور خوشنودی سیدہ کونینؐ کے لئے انجام دینا چاہے اس لئے کہ ہر وہ عمل جو ظاہری طور پر دکھنے میں چھوٹا محسوس ہوتا ہے اگر خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا جارہا ہو تو وہ اس عمل سے لاکھ گنا بہتر ہے جس میں خلوص اور خوشنودی خدا و رسول (ص) نہ پایا جاتا ہو اب چاہے دکھنے میں وہ عمل کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ۔

لہٰذا چاہے مجلس ہو ، چاہے مرثیہ و سوز و سلام و نوحہ و ماتم ہو، یا چاہے تبرک ہو ، ان سارے کاموں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں خلوص نیت اور خوشنودئی شہزادی کونینؐ کے لئے انجام دینا چاہئے ۔

۴۔ مجلس کے دوران اپنے آپ کو فضول کاموں ( موبائیل وغیرہ ) میں مشغول نہ رکھتے ہوئے فرش عزا پر تشریف لانا چاہئے اس لئے کہ یہ وہ فرش ہے جہاں مظلوم کربلاؑ کی مصیبت سننے شہزادی کونین (س) خود تشریف لاتی ہیں لہذا ایک عزادار و ماتم دار کو یہ بالکل زیب نہیں دیتا کہ فرش عزا خالی رہے اور عزادار باہر دوسرے فضول کاموں میں مشغول رہے لہٰذا ہم ایک عزادار مظلومؑ کربلا ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ پہلے سے فرش عزا پر تشریف لاکر عالم و ذاکر کے فضائل و بیانات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کریں ۔

لہذا ہر عزادار و ماتم دار کو چاہئے کہ مفہوم عزاداری اور مقصد عزاداری کو سمجھ کر شعورِ حسینی کے ساتھ اس اہم ترین عبادت کو اسکے تمام احکام و آداب کا خاص خیال رکھتے ہوئے انجام دے تاکہ ہماری یہ عبادت، یہ مجلس ، یہ گریہ و ماتم خدا کی بارگاہ میں مقبول واقع ہو اور یہی عمل دنیا و آخرت میں ہماری نجات کا سبب بنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔