فلم "میں اٹل ہوں” کے ذریعہ حکمراں جماعت آئندہ ہونے والے انتخابات کی تشہیر کر تی نظر آرہی ہے

ممبئی


۔


تجزیہ : حنان انصاری

ممبئی :فلم "میں اٹل ہوں” ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی تعلیمی اور سیاسی زندگی پر مبنی ہے جس میں مرکزی کردار یعنی اٹل بہاری کا کردار مایاناز اداکار پنکج ترپاٹھی نے بخوبی ادا کیا ہے جبکہ فلم میں اٹل بہاری کے سیاسی دور کے بہت سے سیاستدانوں کو ہو بہو شکل میں دکھانے کی ایک بہتر کوشش کی گئی ہے جس میں کانگریس سے پنڈت جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری، مولانا ابوالکلام آزاد،اندرا گاندھی، ڈاکٹر منموہن سنگھ، سونیا گاندھی، وغیرہ، وہیں غیر کانگریسیوں میں لال کرشن آڈوانی، چودھری چرن سنگھ، مورارجی دیسائی،شاما پرساد مکھرجی، منڈت دین دیال اوپادھیائے، ارن جیٹلی، پرمود مہاجن، سشما سوراج وغیرہ کے کردار اور اداکاری قابلِ دید ہے، اس فلم کے پروڈیوسر ہیں ونود بھانوشالی، سندیپ سنگھ، سیم خان اور کملیش بھانوشالی جبکہ ڈایریکٹر ہیں روی جادھو، مصنف ہیں رشی ورمانی اور روی جادھو، موسیقی دی ہے سلیم، سلیمان ، دیال دیو، امت راج، کیلاش کھیر وغیرہ نے، یہ فلم بھانوشالی اسٹوڈیو لیمیٹد اور لیجینٹ اسٹوڈیو کے بینر تلے بنائی گئی ہے،

مذکورہ فلم ایسے وقت پر منظرِ عام پر لائی گئی ہے جب کہ ملک میں انتخابات قریب ہیں اور سبھی سیاسی جماعتیں لوک سبھا ، کئی ریاستوں کے لئے اسمبلی اور بہت سے لوکل باڈی انتخابات کی حکمتِ عملی تیار کرنے اور سیٹوں کے بٹوارے اور موجودہ فصطائی اور تشددت پسند حکومت کے خلاف ایک مستحکم محاذ بنانے میں مصروف ہیں، فلم میں آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت کو بدنام کرنے اور کانگریس مخالف خیالات پیدا کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے، وہیں بی.جے. پی. کے قیام سے قبل آر. ایس. ایس. تنظیم کے لوگوں اور اس کی زہنیت رکھنے والوں کو ملک کا وفادار اور جانتا دل اور بی. جے. پی. کا بانی دیکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور کانگریس کی کچھ غلط پالیسیوں اور فیصلوں کو اجاگر کرکے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے، کانگریس کے خلاف عوامی نفرت پیدا کرنے اور بی.جے.پی کو سب سے ذیادہ ایماندار، مظلوم اور ملک کو ترقی دلانی والی واحد سیاسی جماعت ظاہر کیا گیا ہے، فلم تو دستاویزی بتائی جارہی تھی لیکن اس فلم کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوا کہ اس فلم کے ذریعہ حکمراں جماعت آئندہ ہونے والے انتخابات کی تشہیر کر رہی ہے اور بابری مسجد کو شہید کرنے پر اپنی پیٹ تھپ تھپاتی اور رام مندر تعمیر کرنے کا سہرا بھی اپنے ہی سر باندھتی نظر آرہی ہے، حکمراں جماعت بہت سے آزادمحکموں، سرکاری اور عوامی اداروں کو اکثر اپنے مفاد میں استعمال کرتی نظر آتی رہی ہے جس میں ہم دیکھیں تو کچھ وقت سے الکشن کمیشن، انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ بیورو، سی. بی. آئی، اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ تک نے عوام الناس اور خاص طور پر ووٹروں کا اعتماد کمزور کیا ہے اور خود کو عوام کی نظر میں مشکوک بنا یا ہوا ہے ایسی ایک مثال ہم فلم سینسر بورڈ کی بھی لے سکتے ہیں کہ اس ادارہ کے کام ہوتا ہے فلم میں سے قابلِ اعتراض مواد اور ناذیبا مناظر، گالی گلوچ اور فحاشی کو کٹ کرنا اور قدغن لگانا ہے لیکن اب ایسا تو کچھ اس ادارے سے ہوتا نہیں بلکہ اس طرح کی متنازعہ کہانیوں اور یک طرفہ نظریہ کو بھی فلم کی شکل میں رلیز کردینے کی اجازت دینا اور اسے سرٹیفیکیٹ دینا بہت کی افسوس کا مقام اور ستم ظریفی ہے جس پر دانشوران اور انصاف پسند اشخاص کو کسی فیصلے پر پہنچنے کی ضرورت ہے بہر حال اداکاروں کی اداکاری پر اس فلم کو ہم 5 ستاروں میں سے 2.5 ستارے دیتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔