واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عظیم انقلاب ہے جو بشریت کی نجات،حریت اور سعادت کی ضمانت ہے۔
تحریر: مولانا فدا حسین ساجدی
حوزہ نیوز ایجنسی | واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا وہ واحد اور عظیم سانحہ ہے جو نہ اس سے پہلے وجود میں آیا تھا نہ آیندہ آئے گا۔اس کی عظمت اور بزرگی کی واضح دلیل یہ ہے کہ چودہ سو سال کے بعد بھی اس کی تازگی ایسے ہی ہے جیسے کل ہی دنیا میں رونما ہوا ہو۔
واقعہ کربلا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور سرزمین کربلا، شہداء کربلا کے خون سے رنگین نہ ہوتی تو تمام انبیا کی کوششیں رائیگاں جاتی اور انسانوں کی ہدایت کے لئے بنایا گیا الہی نظام نا کار آمد ثابت ہوتا۔واقعہ کربلا صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک عظیم انقلاب ہے جو بشریت کی نجات،حریت اور سعادت کی ضمانت ہے۔ہم اس عظیم انقلاب کی اہمیت کو انسانی تاریخ کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔انسانی تاریخ مجموعی طور پر شخص واحد کی مانند جو بچپنے سے لیکر پڑھاپے تک سوچ سمجھ اور فہم و فکر کے مختلف مراحل طے کرتا ہے۔جس طرح انسان بچپنے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے اس طرح انسان ابتدائی تاریخ میں پڑھاپے میں قدم کیوں نہ رکھا ہو اس کی فکر کمزور اور عقل ناقص تھی۔
جوں جوں تاریخ کے ادوار بدلتے آئے ہیں انسانوں کی عقل تکمیلی مراحل طے کرتی آئی ہے اور رسول اکرم کے دور میں انسان فہم، سوچ سمجھ اور عقل و فکر کے اعتبار سے اس مقام تک پہنچا کہ وہ اپنی ہدایت کے وسائل خود سنبھال سکتا تھا اس لئے اللہ نے انبیا کے سلسلے کو ختم کردیا۔
شریعت اور الہی مکاتب بھی اس تعلیمی مراکز کی مانند ہے جس میں بچے کے بچپنے کے دور سے لے کر اعلی تعلیمی مراحل تک ہر دور کے لئے خاص تعلیمی نظام کا بندو بست کیا جاتا ہے۔
جب انسان یورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کر کے گریجویٹ ہوتا ہے تو اس میں ہر قسم کی سوچ سمجھ آجاتی ہے، اس کو نفع اور نقصان کی پہچان ہوتی ہے، اپنی کامیابی کے تمام اسباب اور علل سے واقف ہوتا ہے اور جو چیزیں اس کی کامیابی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ان سے آگاہ ہوتا ہے اس کے علاوہ زیادہ فائدہ اور مستقبل کے فائدہ کو دیکھ کر کم فائدہ اور موقتی نفع کو نظر انداز کرنے کی صلاحیت بھی انسان کی اندر آجاتی ہے۔اسی طرح نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں انسان، الہی مکتب سے اعلی تعلیم حاصل کرچکا تھا اور اسکی عقل کافی حد تک تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی تھی
انبیا الہی کے بے شمار قربانیاں اور شب و روز محنت کے نتیجے میں انسان مجموعی طور پر اپنی ہدایت کے اسباب اور سعادت کے وسائل سے مکمل آگاہ ہو گیا تھا اور ہدایت کے خواہشمند افراد کی ہدایت کی ضمانت ہوچکی تھی۔انسانوں کی ہدایت اور سعادت کے تمام عوامل اور مقدمات فراہم ہوچکے تھے۔لیکن مشکل موانع اور رکاوٹوں میں تھی کیونکہ انسان کی ہدایت کے راستے میں دو طرح کے مانع حائل ہوسکتا ہے۔ ایک وہ موانع ہیں جو کھل کر سامنے آتے ہیں اور انسان کو انبیا الہی کی تعلیمات کے توسط سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مانع ہیں اور یہ اس کو ترقی کی بلندیوں کی طرف جانے سے روکتا ہے۔
اگر چہ وہ موانع انسان کی خواہشات نفسانی کے ساتھ سازگار ہوں اور اس کا نفس یہی چاہتا ہو لیکن انسان کی سوچ سمجھ اتنی طاقت ور ہوئی ہے کہ وہ ان دلفریب چیزوں کو اپنی ترقی اور کامیابی کی خاطر نظر انداز کرسکتا ہے۔لیکن دوسرے وہ موانع ہیں جو معاون کی شکل میں سامنے آتے ہیں وہ ظاہری طور پر اور بدء نظر میں انسان کی کامیابی اور سعادت کے لئے فرشتہ نجات ثابت ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں انسان کی ہدایت کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
ان کی پہچان بہت مشکل کام ہے یہ انسان کے کے لئےایک کٹھن مرحلہ ہے۔اب اللہ نے انسانی کی ہدایت کے تمام اسباب فراہم کرنے کے علاوہ وہ موانع جو واضح اور آشکار طور پر ظاہر ہوتے ہیں ان کی پہچان کی بصیرت بھی دی ہے۔لیکن باطل جب حق کا لباس اڑتا ہے، مانع معاون کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنے کا اندھیرا فضا ہوتا ہے، اس وقت ایک ایسی عظیم قربانی کی ضرورت تھی جو رہتی دنیا تک حق اور باطل کی شناخت انسانوں کے لئے واضح کر دیں اور باطل کے چہرے سے حق کا لبادہ اٹھا لے۔ اور باطل کے چہرے کو سب کے لئے نمایاں کردیں۔کربلا میں امام حسین علیہ السلام، اور ان کے با وفا ساتھیوں کی قربانی ایسی قربانی تھی جس نے باطل کا چہرہ سب کے لئے واضح کردیا اب ہر قسم کے مانع چاہئے معاون کی شکل میں سامنے آئے انسان کو اس کی پہچان میں مشکل نہیں ہوگی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت نہ ہوتی تو تمام انبیاء کرام کی کوششیں رائیگاں جاتی اور ہدایت کا الہی انتظام کارآمد نہ ہوتا۔